اشاعتیں

دسمبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

وہ ترا عروج و کمال ہے

نعت پاک از ۔ نورالہدیٰ رضوی ، دربھنگہ، بہار نہ کسی طرح کی فسردگی نہ کسی طرح  کا ملال ہے  مرا دل خوشی سے نہال ہے ترا لطف شاملِ حال ہے  جسے انحطاط کی فکر ہے نہ تنزلی کا خیال ہے  جو بعیدِ لوثِ زوال ہے وہ ترا عروج و کمال ہے ترا ہر عمل تری ہر ادا ، بخدا ہے سب سے علیحدہ  ترا کیا کسی سے موازنہ کہ تو آپ اپنی مثال ہے گل و لالہ سنبل و نستریں ، یہ یونہی نہیں ہوۓ عنبریں کہ چمن چمن میں بسی ہوئی تری خوشبوۓ خد و خال ہے میں نشیب ہوں تو فراز ہے میں  گدا  تو  بندہ نواز ہے نہ تو مجھ سا کوئی گنوار ہے نہ ہی تجھ سا خیر سگال ہے یہ صلاۓ عام  کا سلسلہ کہ ہیں ساتھ بیٹھے شہ و گدا سرِ میزِ فرش بچھا ہوا ترا خوانِ  جود و نوال ہے انھیں دل سے یاد کیا کرے ہمہ دم درود پڑھا کرے  جو ہے شامِ ہجر میں مبتلا جسے شوقِ صبحِ وصال ہے تب و تابِ دید جو  لا  سکے رخِ شہ پہ نظریں جما سکے  نہ  کسی کی اتنی بساط ہے نہ کسی میں اتنی مجال ہے تری  بارگاہ  میں  اے خدا ہے یہ عرضِ رضویِؔ بے  نوا رہے محوِ نعت ہی جب تلک تن و جاں کا رشتہ بحال ہے

مری اجڑی بستی بسا گیا

 غزل از ۔ عبدالقیوم ارم شکوہی سیتاپوری ۹/دسمبر ۲۰۲۱  جمعرات جو مثالِ ابرِ سکونِ دل  ہے دل و دماغ پہ چھا گیا مرےقلب و جاں میں سما کے وہ مری اجڑی بستی بسا گیا جسے دیکھ دیکھ کے اہلِ دل کو ملی تھی پیار کی روشنی وہ چراغ حسنِ خلوص کا یہ جہانِ مکر بجھا گیا ہوا مبتلائے حرام دل  ہے غریق حرص و ہوس نفَس " وہ نشاطِ آہِ سحر نہیں وہ وقارِ دستِ دعا گیا " ترے لب گلاب کی پنکھڑی  تری شکل جانِ گلاب ہے کہ بہارِ حسن کا رنگ بھی ہے تری ادا میں سما گیا مرا مدعا تری ذات ہے مرا مشغلہ ترا ذکر ہے مجھے کیا غرض ہے جہان سے مری زندگی میں تو آ گیا یہ سزا ملی ترے عشق میں میں بھٹک گیا رہ عشق سے دلِ بے وفا کی ہے چوٹ کیا کوئی مار کے یہ بتا گیا تری ایک ضرب فراق سے ہے ارم تو ہو گیا جاں بلب ارے بے وفا یہ بتا ذرا تجھے کیا ہوا؟ ترا کیا گیا ؟

رونق کل جہان آیا ہے

نعت شریف از ۔ فیضان سرور ، بھاگلپوری نوع انساں کی جان آیا ہے کل رسولوں کی شان آیا ہے لے کے امن وامان آیا ہے رونق کل جہان آیا ہے ڈال دی جان جانِ رحمت نے جب کوئی نیم جان آیا ہے جس کےآگے ہیں گنگ اہل زباں وہ فصیح اللسان آیا ہے لہجےرس گھولتے ہیں کانوں میں ایسا شیریں بیان آیا ہے تیرے آنگن میں آمنہ بی بی عرش  کا  میہمان آیا ہے جو بتائے گا راز حق سرور  رب کا وہ ترجمان آیا ہے

نغمۂ نعت گنگناتا ہوں

 نعت رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلّم  از راحت انجم (ممبئی) نغمۂ نعت گنگناتا ہوں رنج و غم سے نجات پاتا ہوں  صبح تا شام چرخ مدحت میں  طائر فکر کو اڑاتا ہوں  شکر مولیٰ کہ خانۂ دل میں  بزم یاد نبی سجاتا ہوں چاہتا جب بھی ہوں ، تصور میں  روضۂ مصطفیٰ پہ جاتا ہوں  ہاتھ اٹھاتا ہوں جب دعا کے لیے  میں وسیلہ انھیں بناتا ہوں  اپنے آقا کی بات کر کر کے  بخت خوابیدہ کو جگاتا ہوں  ان کا پانی ہے ان کا دانہ ہے  جو میں پیتا ہوں جو میں کھاتا ہوں جو ہیں دشمن حضور کے راحت  ایسوں سے دل نہیں لگاتا ہوں

خوشنما موسمِ بہار نہیں

غزل رنگ عارفانہ از ۔ شمس تبریز خاکی ظہوری بلگرامی خانقاہ ظہوریہ چشتیہ قادریہ بلگرام شریف ہردوئی  اس کو بیشک چمن سے پیار نہیں جس کو محبوب اس کا خار نہیں اس میں کچھ بھی نہیں ہے جو تیرے چاہنے والوں میں شمار نہیں سچ کہوں تو ترے بغیر صنم خوشنما موسمِ بہار نہیں عشق  کا باب نامکمل ہے دل اگر تیرا بے قرار نہیں  روٹھ جانے سے اک ترے ساقی جام و مینا میں وہ خمار نہیں بھیک دیتے ہیں سب مگر جاناں کوئی دیتا یوں بار بار نہیں کیا  حقیقت ہے بزم میں اس کی جس پہ خاکی نگاہِ یار نہیں

مدت سے میرے گھر کوئی مہماں نہیں رہا

غزل از ۔ محمد قیصر رضا تیغی سمستی پور دردِ جگر کا جب کوئی ساماں نہیں رہا جینے کا میرے دل میں بھی ارماں نہیں رہا راہِ خدا میں اپنا لٹائے  جو مال و زر افسوس ایسا کوئی بھی سلطاں نہیں رہا خود بھوکا رہ کے کھانا کھلائے غریب کو یہ  کام  میرے  دوستو  آساں نہیں رہا برکت چلی گئی ہے مرے گھر سے اس لیے مدت سے میرے گھر کوئی مہماں نہیں رہا راہِ وفا میں جان کی بازی لگائے جو اس دورِ پرفتن میں وہ انساں نہیں رہا کھاتا ہے ٹھوکریں وہ زمانے میں ہر طرف جس کا جہاں میں کوئی نگہباں نہیں رہا کس  کو  سناؤں  حال،  غمِ روزگار کا اب کچھ بھی آہ درد کا درماں نہیں رہا کرتا  ہے  جو  بھروسہ  خدا  پر جہان میں  قیصر وہ دو جہاں میں پریشاں نہیں رہا

الفت کی باتیں

 غزل از: سید خادم رسول عینی کرو تم سدا عشق و الفت کی باتیں  کرو ترک بغض و عداوت کی باتیں جو لے جائے دربار جان جہاں تک کریں  ایسے سیر و سیاحت کی باتیں مرے آنسوؤں کی کہانی عجب ہے یہ کرتے  ہیں شاید مسرت کی باتیں   زباں سے جھڑیں جن کی گلہائے تازہ  کرو گل سے ان کی فصاحت کی باتیں فلک بھی ٹھہر کر جسے دیکھتا ہے کریں  ایسے انساں کی رفعت کی باتیں  کیے جاؤ تم کام جب تک ہیں سانسیں  نہ کرنا کبھی بھی فراغت کی باتیں  کرم کی گھٹا تم پہ برسے گی "عینی"  کرو ان کے گیسو کی جودت کی  باتیں

باہر نکل کے دیکھو

 غزل از: سید خادم رسول عینی خود غرضی کے مکاں سے باہر نکل کے دیکھو خلوت  کے آشیاں سے باہر نکل کے دیکھو  تم سے حقیقتوں کی کہتی ہے یہ زمیں اب  خوابوں کے آسماں سے باہر نکل کے دیکھو قصر یقیں بھی تم کو  مل جائے گا جہاں میں تم خانۂ گُماں سے باہر نکل کے دیکھو آلائش جہاں کے مابین جاگرو گے  تم‌ ان کے آستاں سے باہر نکل کے دیکھو  محنت کا پھل ہے کیسا  یہ تم بھی جان لوگے  راحت کے سائباں سے باہر نکل کے دیکھو ہیں اور بھی ستارے کرنے کو ضوفشانی تم اپنی کہکشاں سے باہر نکل کے دیکھو  "عینی" بہار کی رت تم پر نثار ہوگی درد و غم خزاں سے باہر نکل کے دیکھو

مرتبہ سرکار کا

 نعت پاک از ۔ غلام ربانی فارِح مظفرپوری کیا بیاں کوئی کرے گا مرتبہ سرکار کا  حق تعالیٰ خود ہے واصف سیدِ ابرار کا دل  ہمارا جھوم اٹھا محفلِ میلاد میں  ذکر چھیڑا جب کسی نے احمدِ مختار کا بھیک دے دیں ناتواں کو یا شہِ ہر دوسرا ہے کھڑا ادنیٰ گداگر آپ کے دربار کا والضحیٰ والشمس قرآں نے بتایا صاف صاف وصف کیسے ہو بیاں ان کے لب ورخسار کا جس کی آنکھوں میں مدینے کا ہے نقشہ ہر گھڑی اس کو کچھ بھی غم نہیں ہے دنیا کے بازار کا ذات نورانی ہے ان کی بے مثال ان کے صفات مرتبہ  سب میں بڑا ہے نبیوں کے سردار کا تا ابد قائم رہے گا اور نہ ٹوٹے گا کبھی ہے انوکھا اپنا رشتہ مصطفٰی سے پیار کا پل میں پہنچے  فرش سے ہیں  لامکاں تک مصطفی ہے کوئی اندازہ کرلے   سرعت و رفتار کا بابِ خیبر کو اکھاڑا ہے علی نے ہاتھ سے کیا کوئی ہوگا مقابل حیدری تلوار کا؟ دے دو سولی یا جلا دو غم نہیں ہے عشق میں  خوف رکھتا ہی نہیں فارح صلیب و دار کا 10/12/17

کوئی آپ جیسا نبی کہاں ، کوئی آپ جیسا بشر کہاں

 نعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم از ۔ سید خادم رسول عینی ، اڑیسہ جو تھا سوئے طیبہ سفر کبھی، کہیں اس کے جیسا سفر کہاں   جو سحر گزاری تھی طیبہ میں کہیں ایسی ایک سحر کہاں ہمہ گیر شخصیت آپ کی ،نہیں آپ کی ہے طرح کوئی کوئی آپ جیسا نبی کہاں ، کوئی آپ جیسا بشر کہاں شہ دیں  کے ایک اشارے سے ہوا  آدھا آدھا پہاڑ میں   جو ہماری دھرتی کا چاند ہے کہیں اس کے جیسا قمر کہاں گریں کٹ کے فوج الم سبھی کرم حضور ہو ساتھ اگر نہ ہو شامل ان کا وسیلہ گر تو تری دعا میں اثر کہاں  انھیں خود عمر کہیں سیّدا ، ہے بلال کا  بڑا مرتبہ  جو حبش سے آکے گہر بنے ، کہیں ان کے جیسا گہر کہاں جو ہے باغی دین متین کا کرے انتظار وہ حشر کا  جو جلائے منکر دین کو کہیں دہر میں وہ سقر کہاں وہ علیم‌ ہیں وہ خبیر ہیں وہ بشیر ہیں وہ نذیر ہیں  نہ ہو علم جس کا حضور کو  کوئی" عینی  "ایسی خبر کہاں

رات بهر آپ کو یاد کرتے رہے

 غزل از ۔ فاتح چشتی مظفرپوری خود کو خوشبو سے آباد کرتے رہے رات بھر آپ کو یاد کرتے رہے مسکراتے رہے پی کر اشک الم اس طرح آپ کو شاد کرتے رہے زندگی چار دن کی ملی تھی مگر بس وفاؤں میں برباد کرتے رہے لوٹ کر آگئے جادۂ عشق سے یاد انجام فرہاد کرتے رہے انگلیوں کو بنا کر قلم ریت پر خط نگارِیِ شمشاد کرتے رہے جاں چھڑانے کی خاطر وہ ہم سے سدا نت نئے طور ایجاد کرتے رہے ہم تو انصاف ہر بار مانگا کیے آپ ہی ہم کو بیداد کرتے رہے ہاتھ آیا کسی کے نہ حالانکہ لوگ خوب فاتح کو منقاد کرتے رہے *25/8/21*

مرے لب پہ ذکر درود ہے

نعت پاک از ۔ محمد برکت علی جامعی سمستی پوری نہ ریا کا وہم و گمان ہے نہ خیال نام و نمود ہے کوئی آگیا ہے خیال میں مرے لب پہ ذکر درود ہے تو ہی روح جان بہار ہے تری  یاد  دل کا  قرار ہے ترے دم سے لطف رکوع ہے ترے دم سے حسن سجود ہے تو  بشیر  ہے، تو نذیر ہے تو ہی رشک بدر منیر ہے تو ہی رازدار غیوب ہے تو  ہی تاجدار شہود ہے مجھے  عشق آل  نبی  سے ہے حسن و حسین و علی سے ہے انھی نور والوں کے عشق سے مرا نور بار وجود ہے اے  عدوئے شاہ! تو یوں بھونک مت سوئے آسماں کبھی تھوک مت مرے آگے قصۂ عاد ہے مجھے علم قوم ثمود ہے ہو نگاہ لطف و کرم ذرا  بطفیل  سیدہ  فاطمہ مرے سرورا، مرے ہند میںب اھی ہر سو زور ہنود ہے جو بھی برکت ان کا گدا ہوا جو بشوق ان پہ فدا ہوا ملا اس کو مژدۂ جانفزا وہی مستحق خلود ہے

کبھی رخ سے پردہ اٹھا بھی دو

غزل نتیجہ فکر ۔ عارف القادری چشتی ربانی امروہوی بانی ۔  تحریک میں صدقے یارسول الله رابطہ نمبر : 07738603786 کبھی خلوتوں میں نوازشیں ، کبھی انجمن سے اٹھا بھی دو میں مریض عشق ہوں آپ کا مجھے چاہے جتنی سزا بھی دو وہ جو آگ تم نے لگائی ہے مرے دل جگر میں سمائی ہے مرا دل جلا تو جلا مگر ، کبھی اپنے دل کا پتہ بھی دو میں وفور عشق میں گاؤں گا ، میں ہر اک ستم کو بھلاؤں گا مرا نام لکھ کے زمین پر ،کبھی مسکراکے مٹا بھی دو دل مضطرب کی یہ آہ ہے ، جسے اعتراف گناہ ہے کیا میں نے جرم وفا کیا، مجھے تم نظر سے گرا بھی دو کبھی تیرہ بختوں کی عید ہو کبھی یوں بھی گفت و شنید ہو کبھی بے حجاب ہوں سامنے ، کبھی رخ سے پردہ اٹھا بھی دو یوں مریض عشق صدا کرے ، تمہیں رحم آئے خدا کرے مجھے درد دل تو عطا کیا ، کبھی درد دل کی دوا بھی دو سنو ! وہ جو عارف زار ہے ، یہ اسی کے دل کی پکار ہے دو تسلیاں اسے یوں کہو ! چلو حال دل کا سنا بھی دو

ساماں نہیں رہا

غزل از ۔ فاتح چشتی مظفرپوری طوفان نوح لانے کا خواہاں نہیں رہا صد شکر میں فراق میں گریاں نہیں رہا سارا اثاثہ ہجر کی آتش میں جل گیا اب پاس میرے سینۂ سوزاں نہیں رہا اشک فراق جذب کروں تو کہاں کروں محفوظ سوز عشق سے داماں نہیں رہا ایسی شکست کھائی ہے نظروں کے تیرسے اس دل میں جوش آہوئے میداں نہیں رہا نظریں ملیں جو ان سے تو بجلی سی گرگئی اک دم ہوا کچھ ایسا دم جاں نہیں رہا اک دل ہی تو تھا وہ بھی کوئی لوٹ لے گیا جینے کے واسطے کوئی ساماں نہیں رہا گہرائی جب سے ناپی ہے ،،حبل الورید،،کی اک لمحہ پرسکوں دل بریاں نہیں رہا ان کی تجلیوں نے چکا چوندھ کردیا اب شوق دید روئے حسیناں نہیں رہا جب سے ملی ہے نسبت دست کمال یار واللہ میں کوئی سکۂ ارزاں نہیں رہا عقدہ کشائی ان سے مری کی نہیں گئی میں بھی اسیر زلف پریشاں نہیں رہا وا حسرتاہ حرماں نصیبی مری تو دیکھ اک لمحۂ وصال کو کوشاں نہیں رہا *فاتح* سلامتی سے گزر آئے کس طرح  ترکش میں ان کے کیا کوئی پیکاں نہیں رہا؟ 1/12/21