مری اجڑی بستی بسا گیا

 غزل

از ۔ عبدالقیوم ارم شکوہی سیتاپوری

۹/دسمبر ۲۰۲۱  جمعرات


جو مثالِ ابرِ سکونِ دل  ہے دل و دماغ پہ چھا گیا

مرےقلب و جاں میں سما کے وہ مری اجڑی بستی بسا گیا

جسے دیکھ دیکھ کے اہلِ دل کو ملی تھی پیار کی روشنی

وہ چراغ حسنِ خلوص کا یہ جہانِ مکر بجھا گیا

ہوا مبتلائے حرام دل  ہے غریق حرص و ہوس نفَس

" وہ نشاطِ آہِ سحر نہیں وہ وقارِ دستِ دعا گیا "

ترے لب گلاب کی پنکھڑی  تری شکل جانِ گلاب ہے

کہ بہارِ حسن کا رنگ بھی ہے تری ادا میں سما گیا

مرا مدعا تری ذات ہے مرا مشغلہ ترا ذکر ہے

مجھے کیا غرض ہے جہان سے مری زندگی میں تو آ گیا

یہ سزا ملی ترے عشق میں میں بھٹک گیا رہ عشق سے

دلِ بے وفا کی ہے چوٹ کیا کوئی مار کے یہ بتا گیا

تری ایک ضرب فراق سے ہے ارم تو ہو گیا جاں بلب

ارے بے وفا یہ بتا ذرا تجھے کیا ہوا؟ ترا کیا گیا ؟

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شب معراج

رسولِ ذی شاں مدینے والے

بھر دے تو کاسہ مرا رب کریم