رات بهر آپ کو یاد کرتے رہے
غزل
از ۔ فاتح چشتی مظفرپوری
خود کو خوشبو سے آباد کرتے رہے
رات بھر آپ کو یاد کرتے رہے
مسکراتے رہے پی کر اشک الم
اس طرح آپ کو شاد کرتے رہے
زندگی چار دن کی ملی تھی مگر
بس وفاؤں میں برباد کرتے رہے
لوٹ کر آگئے جادۂ عشق سے
یاد انجام فرہاد کرتے رہے
انگلیوں کو بنا کر قلم ریت پر
خط نگارِیِ شمشاد کرتے رہے
جاں چھڑانے کی خاطر وہ ہم سے سدا
نت نئے طور ایجاد کرتے رہے
ہم تو انصاف ہر بار مانگا کیے
آپ ہی ہم کو بیداد کرتے رہے
ہاتھ آیا کسی کے نہ حالانکہ لوگ
خوب فاتح کو منقاد کرتے رہے
*25/8/21*
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں