مدت سے میرے گھر کوئی مہماں نہیں رہا
غزل
از ۔ محمد قیصر رضا تیغی سمستی پور
دردِ جگر کا جب کوئی ساماں نہیں رہا
جینے کا میرے دل میں بھی ارماں نہیں رہا
راہِ خدا میں اپنا لٹائے جو مال و زر
افسوس ایسا کوئی بھی سلطاں نہیں رہا
خود بھوکا رہ کے کھانا کھلائے غریب کو
یہ کام میرے دوستو آساں نہیں رہا
برکت چلی گئی ہے مرے گھر سے اس لیے
مدت سے میرے گھر کوئی مہماں نہیں رہا
راہِ وفا میں جان کی بازی لگائے جو
اس دورِ پرفتن میں وہ انساں نہیں رہا
کھاتا ہے ٹھوکریں وہ زمانے میں ہر طرف
جس کا جہاں میں کوئی نگہباں نہیں رہا
کس کو سناؤں حال، غمِ روزگار کا
اب کچھ بھی آہ درد کا درماں نہیں رہا
کرتا ہے جو بھروسہ خدا پر جہان میں
قیصر وہ دو جہاں میں پریشاں نہیں رہا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں