اشاعتیں

قریب ہے

 نعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم از ۔ سید خادم رسول عینی دل کانپتا ہے روضۂ انور قریب ہے  ہوں مطمئن جمال  پیمبر قریب ہے نور ردا ملا تو کسی کو شفا ملی  نعتوں  سے یوں رضائے پیمبر قریب ہے  پیوست میرے ذہن میں ہے یاد  طیبہ کی  لگتا ہے روز ، صبح کا منظر قریب ہے حضرت سراقہ ہوگیے ایماں سے سرفراز ان کو لگا کہ ان کا مقدر قریب ہے  نعت نبی کا شعر قلم بند جب ہوا  ایسا لگا کہ خوشبوے عنبر قریب ہے لا خوف کی ہے آیت قرآن بھی گواہ ولیوں کے واسطے نہ کوئی ڈر قریب ہے روضے کے پاس ان کے وسیلے سے کی دعا  "عینی" لگا کہ بخشش داور قریب ہے

حقدار ہو گیا

 نعت پاک از ۔ کلام الدین کلیمی دنیا سے دل ہمارا بھی بیزار ہو گیا جب سے یہ مصطفیٰ کا طلب گار ہو گیا جب میں غلام سید ابرار ہو گیا خلد بریں میں جانے کا حقدار ہو گیا عشقِ نبی سے دل کو سجایا تھا اس لئے محشر میں پل صراط کے اس پار ہو گیا عاشق بنا وہ جب سے رسول کریم کا حبشی غلام دیکھیے سردار ہو گیا جب سے شہ مدینہ پہ پڑھنے لگا درود میں بھی خدا کے فضل سے زردار ہو گیا ایسا لگا کہ باغ جناں میں ہوں میں کھڑا جیسے مدینہ حاضرئ دربار ہو گیا لے کے نبی کا نام کلیمی چڑھا ہوں میں واللہ کھیویا ناؤ کا منجدھار ہو گیا

پردے میں ہے

 پردے میں ہے از ۔ سید خادم رسول عینی  شائستگی پردے میں ہے  اور چاشنی  پردے میں ہے اے دختر اسلام سن عفت تری پردے میں ہے  سب کو ہے اس کا احترام  پاکیزگی پردے میں ہے  شرم و حیا کے پھول کی  موجودگی پردے میں ہے یہ شور سے رکھتا ہے دور  سنجیدگی پردے میں ہے  بد نیتی غائب ہوئی   یوں دلکشی پردے میں ہے بھٹکے ہوئے عاجز ہوئے یوں راستی پردے میں ہے  رنگینی سے کیا واسطہ ؟ اک سادگی پردے میں ہے تہذیب اور اخلاق کی  "عینی" خوشی پردے میں ہے

شب معراج

 شب معراج از ۔ سید خادم رسول عینی  ہر شی ہے زمانے میں منور شب معراج آقا کے توسل سے معطر شب معراج آقا کو بلا واسطہ پیغام ملا ہے  ہے دید الہی بھی میسر شب معراج  آقا کو ملے بخشش امت کے تحائف ہے اپنے لیے حسن مقدر شب معراج مصروف عبادت میں رہو مومنو اس رات برکات کا ہے ایک سمندر شب معراج اک چشم زدن میں وہ گئے عرش سے آگے کرتی ہے ہر اک شخص کو ششدر شب معراج سدرہ سے سواری وہ بنا نور خدا کا  رف رف کا بنا خوب مقدر شب معراج  تھے سارے نبی پیچھے ، پیمبر رہے آگے  کیا خوب تھا اقصیٰ کا وہ منظر شب معراج  امت کے لیے تحفہ نمازوں کا ملا تھا  جب نزد خدا پہنچے پیمبر شب معراج کرتا نہیں اللہ دعا رد کبھی اس رات  راتوں میں  بہت" عینی" ہے  بہتر شب معراج

دیکھتے رہیے

غزل از ۔ سید خادم رسول عینی مچا ہر ایک سو کہرام دیکھتے رہیے تساہلی کا یہ انجام دیکھتے رہیے جو دیکھا ان کو قمر بول اٹھا خجل ہوکر وہ آگیے ہیں سر بام دیکھتے رہیے نہا کے یار کی یاد حسیں کی بارش میں   ہوئی ہے تازہ تریں  شام دیکھتے رہیے کسی کے یاد کی اشیاء کو جمع کرکے آپ لطیف لمحوں کے گودام دیکھتے رہیے دروغ گوئی کو باہر حرم سے کردیجیے ہے سچ کا جسم میں احرام دیکھتے رہیے یہ کیسا ضابطہ ہے ، جرم ایک شخص کرے لگے ہر ایک پہ الزام دیکھتے رہیے خلوص اور محبت کا گر رہے فقدان  تمام  کام ہوں  ناکام دیکھتے رہیے مقام عدل میں ہی جسم عدل کا "عینی " ہوا ہے قتل سر عام دیکھتے رہیے

لڑتے ہیں موت سے

غزل از ۔ شکیل شکوہی مداری بہیڑی بزدل تمہارے جیسے ہی چھپتے ہیں موت سے پنجہ لڑاتے ہم سدا آئے ہیں موت سے سر سے کفن کو باندھ کے ملتے ہیں موت سے  عشاق مصطفی نہیں ڈرتے ہیں موت سے  آتنکی بھگوادھاریو سن لو بگوش ہوش ایمان والے ہر گھڑی لڑتے ہیں موت سے ہے آبِ زر سے ماضی ہمارا لکھا ہوا ہم بدر میں بھی دیکھیے کھیلے ہیں موت سے ہر گز ہمارے قائد و رہبر نہیں  ہیں وہ  جوخوف کھائےگھرمیں ہی بیٹھےہیں موت سے تم نے بڑھا دیں اہل تشدّد کی ہمتیں مسجد میں گھس کے تم کوڈراتے ہیں موت سے موقع ملا تو سینہ سپر ہونگے ایک دن ہم وہ نہیں جو نطریں چراتے ہیں موت سے مذہب کے نام پر وہ شکوہی جگہ جگہ انسانیت کو روز جلا تے ہیں موت سے

پرچم اسلام لہراؤ

غزل از ۔ شکیل احمد شکوہی مداری بہیڑی چلو مل کر گرادیں ظلم کی دیوار کو آؤ فروعی مسئلوں کو بھول کر سب ایک ہوجاؤ نبی کی عظمتیں ہر ایک کو بتلاؤ سمجھاؤ بھلے ہی قادری، چشتی، مداری، آپ کہلاؤ اگر تم واقعی اسلام کے سچے مجاہد ہو مدد فرمائے گا مولیٰ تمہاری تم نہ گھبراؤ دلوں میں عزم لیکر تین سو تیرہ سا تم اپنے گھروں سے نکلو اور کونین میں ہر سمت چھا جاؤ نبی کے چاہنے والو محبت اور اخوّت سے  زمانے میں ہراک سو پرچم اسلام لہراؤ زمانے کو بتا دیجے ہے یہ قول رسول اللہ زبردستی کسی سے تم مرا کلمہ نہ پڑھواؤ مٹادیں گے تمہارا نام یہ دنیا کے نقشے سے غلامان نبی کو اے جہاں والو نہ اکساؤ نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانو! یہی تو درس ہے اقبالؔ کا اب بھی سنبھل جاؤ اگر چاہو کہ مرقد میں اجالا ہی اجالا ہو شکوہی تم ترانے سرورِ کونین کے گاؤ

بھر دے تو کاسہ مرا رب کریم

حمد و مناجات از ۔ سید خالد عبداللہ اشرفی، اورنگ آباد خالق   ارض وسما  رب کریم اے جہاں کے بادشا رب کریم لائق حمد  و ثنا    رب  کریم ذات برحق  کبریا   رب کریم من عرف کی ہے صدا رب کریم کر  عطا  عرفاں  ترا رب کریم شان تیری ہونہیں سکتی بیاں عقل سے ہے ماوریٰ رب کریم کبریائی ہے   ترے  ہی  واسطے توہی ہے سب سے بڑا رب کریم لائق سجدہ فقط ہے تیری ذات ہے تو ہی سب کا خدا رب کریم ذرے ذرے سے ہویدا تیری شان ہر جگہ جلوہ ترا رب  کریم گل کو نکہت تو نے بخشی یا خدا مہر و مہ کو دی ضیا رب کریم ذکر،گلشن میں گلستاں میں ترا ہو رہا  صبح و مسا رب  کریم کوئلوں کی راگنی میں تیرا نام ذکر برلب بس ترا رب  کریم دست قدرت میں ترے ہر ایک کے بخت کا   ہے فیصلہ  رب کریم واسطہ تجھ کو ترےمحبوب کا سن لے میری  التجا رب کریم مجھ کو اور میرے سبھی احباب کو مکر  شیطاں سے بچا رب کریم مانا میں بدکار ہوں پر ہوں ترا مجھ پہ کرچشم عطا رب کریم ہوں  سراپا  پرخطا  مولا مرے بخش دے ہراک خطا رب کریم معص...

کریم وذیشان شاہ خوباں

 کریم و ذیشان شاہ خوباں از ۔ فیضان سرور ، بھاگلپور رؤف و جواد و نور یزداں کریم وذیشان شاہ خوباں کرم سےکردیں ہماری مشکل ہرایک آسان شاہ خوباں کلیم کوئی، مسیح کوئی ، خلیل کوئی ،  ذبیح کوئی مگر نہیں ہے بجز تمھارے حبیب رحمان شاہ خوباں وہ میرے ہر درد کے ہیں درماں وہی مری مغفرت کا ساماں ہے میری پہچان ان کی نسبت ہیں جان  ایمان شاہ خوباں ہے تیری صورت مہِ درخشاں ہےتیری سیرت کہ جیسے قرآں ہے خلق خلق ِ عظیم تیرا تو حق کی برہان شاہ خوباں زمیں پہ ہرسمت تیرا جلوہ فلک پہ ہر سو ہے بول بالا رگ جہاں میں تری حرارت تو دہر کی جان شاہ خوباں وہ جن سے لیتے ہیں نور سارے گھٹائیں جگنو، شفق ستارے ہیں زیب لوح وقلم وہ میرے سخن کا عنوان شاہ خوباں خطا سے پر ہے تمہارا دفتر بچوگے کیسے بروز محشر اگر نہ تم پرکریں اےسرور بتاؤ؛ احسان شاہ خوباں

رسولِ ذی شاں مدینے والے

نعت پاک مرزا جاوید بیگ العطاری ، کراچی پاکستان  نبیِ رحمت شفیعِ  اُمت رسولِ ذی شاں مدینے والے خدا کی روشن دلیل و حُجت رسولِ ذی شاں مدینے  والے ہے بات  وحیِ خدا  تمھاری زبان آقا ہے کُن کی کُنجی کلامِ دِلکش میں جامِعیت رسولِ ذی شاں مدینے والے عدو جوپہلے تھے جاں کے دشمن  نثار کرنے لگے وہ تن من تمھاری باتوں میں ہے حلاوت رسولِ ذی شاں مدینے  والے مِٹایا دُختر کُشی کا  چکر  حقوق ِ نِسواں کیے اُجاگر اُنہیں دلایا حقِ وِراثت رسولِ ذی شاں مدینے والے قلیل  ٹھہری  متاعِ  دُنیا ہے تم پہ فضلِ کبیر رب کا خدا نے بخشی تمھیں وہ کثرت رسولِ ذی شاں مدینے والے جلال رب کا غضب تمھارا رِضا تمہاری خدا  کی منشا وِلا تمہاری  خدا کی  اُلفت رسولِ ذی شاں مدینے والے یہ دل میں حسرت مچل رہی ہے دعا لبوں پر  یہی  سجی ہے دِکھادیں مجھکو بھی اپنی طلعت رسولِ ذی شاں  مدینے  والے تمہارا مِدحت سرا ہے مرزا تمھارے دربار کا  ہے منگتا رہے سلامت سدا یہ نِسبت رسولِ ذی شاں مدینے والے