لڑتے ہیں موت سے
غزل
از ۔ شکیل شکوہی مداری بہیڑی
بزدل تمہارے جیسے ہی چھپتے ہیں موت سے
پنجہ لڑاتے ہم سدا آئے ہیں موت سے
سر سے کفن کو باندھ کے ملتے ہیں موت سے
عشاق مصطفی نہیں ڈرتے ہیں موت سے
آتنکی بھگوادھاریو سن لو بگوش ہوش
ایمان والے ہر گھڑی لڑتے ہیں موت سے
ہے آبِ زر سے ماضی ہمارا لکھا ہوا
ہم بدر میں بھی دیکھیے کھیلے ہیں موت سے
ہر گز ہمارے قائد و رہبر نہیں ہیں وہ
جوخوف کھائےگھرمیں ہی بیٹھےہیں موت سے
تم نے بڑھا دیں اہل تشدّد کی ہمتیں
مسجد میں گھس کے تم کوڈراتے ہیں موت سے
موقع ملا تو سینہ سپر ہونگے ایک دن
ہم وہ نہیں جو نطریں چراتے ہیں موت سے
مذہب کے نام پر وہ شکوہی جگہ جگہ
انسانیت کو روز جلا تے ہیں موت سے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں