اشاعتیں

اکتوبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ایمان ہمارا ہے

نعت پاک از ۔ نور محمد جامعی عشاق محمد ﷺ کبھی ایسا نہیں کرتے  جاں دیتے ہیں ایمان کا سودا نہیں کرتے  ایمان ہمارا ہے کہ سرکار ہیں زندہ حجت کبھی اس بات پہ ڈھونڈا نہیں کرتے حامی و مددگار ہیں سلطان مدینہ ہم غیر کو مشکل میں پکارا نہیں کرتے جو نام محمد رکھے ہر وقت زباں پر نا کامی کا وہ منہ کبھی دیکھا نہیں کرتے سرکار کے دربار سے پلتا ہے زمانہ وہ کون ہیں خیرات جو پایا نہیں کرتے اک ہم ہیں کرتے ہیں گناہوں پہ گناہیں اک وہ ہیں جو ہم کو کبھی رسوا نہیں کرتے اک نعت کا مصرع بھی رقم ہوتا نہیں نور ہم پر جو کرم شاہ مدینہ نہیں کرتے

حرم کے پاسباں

 نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم از ۔ سید خادم رسول عینی مکین‌ لامکاں حبیب رب رسول پاک ہیں  خدا کے میہماں حبیب رب رسول پاک ہیں   عطا کی ان کو ملکیت خدائے دوجہان نے  امیر کل جہاں حبیب رب رسول پاک ہیں  علوم سب سکھا دیے خدائے  ذوالجلال نے  خدا کے رازداں حبیب رب  رسول پاک ہیں انھی کی  خواہش دلی  سے کعبہ قبلہ بن گیا حرم کے پاسباں حبیب رب رسول پاک ہیں   ہر ایک بات شاہ کی ہے وحیِ رب دو جہاں خدا کے ترجماں حبیب رب رسول پاک ہیں انھی کے دم قدم سے " عینی" ہر طرف  بہار ہے  کہ  ماحیء خزاں حبیب رب  رسول پاک ہیں

نازش گلزار

 غزل از ۔ سید خادم رسول عینی محبوب مرا نازش گلزار  ہے واللہ اللہ کی قدرت کا وہ شہکار ہے واللہ  جب بولے وہ تو پھول جھڑیں  اس کے لبوں  سے اس طرح مرے یار  کی گفتار ہے واللہ  حیرت زدہ بجلی ہی نہیں قدسی،فلک  بھی یوں تیز ترین  آپ کی رفتار ہے واللہ کیوں موت کا ہو خوف مرے دل میں کبھی بھی  نظروں میں فقط وعدہء دیدار ہے واللہ   گھر اپنا بساؤ رہو بازار سے تم دور فتنوں کی جگہ ہر کوئی  بازار ہے واللہ اے دوست  ہمیشہ کے لیے اس کو  گرادے  تکلیف دہ  سب رشتوں میں   دیوار ہے واللہ  کیوں  دل کبھی مغموم رہےگا مرا" عینی " ہر وقت تصور میں  مرے  یار ہے واللہ

نخرہ نہیں کرتے

غزل از ۔ نور محمد جامعی بے چین ہوں دیدار کو نخرہ نہیں کرتے عاشق کا سر عام تماشا نہیں کرتے جو عشق کے وادی میں قدم رکھتے ہیں اپنا انجام مگر وہ  کبھی سوچا نہیں کرتے ہم آئے ہیں دیدار کو  تم پردہ نشیں پو دیوانے ہیں ہم ظلم یوں ڈھایا نہیں کرتے روتے ہیں کبھی ہسنتے ہیں یادوں میں تمہاری ہم عشق کے مارے ہوئے کیا کیا نہیں کرتے گھائل ہوئے جاتے ہیں ہزاروں کے صنم دل بے پردہ کبھی گھر سے یوں نکلا نہیں کرتے کر یار بھروسہ ہوں گے وعدے سبھی پورے خوددار ہیں ہم قول سے مکرا نہیں کرتے ہے دل کے یہ تہ خانے میں تصویر تمہاری اب اور کوئی نور کو بھایا نہیں کرتے

سمجھا نہیں کرتے

غزل از ۔ قیصر تیغی ، سمستی پور ہم عشق میں ہر گز کبھی سودا نہیں کر تے جاں دیتے ہیں الفت میں تماشہ نہیں کر تے جو راز محبت کا چھپا یا نہیں کر تے وہ لطفِ محبت کبھی پا یا نہیں کر تے اسرار محبت سے نہیں ہوتے وہ واقف آداب محبت کو جو سمجھا نہیں کرتے جو کچھ بھی ہمیں ملتا ہے محبوب کے در سے  دامن میں چھپا لیتے ہیں شکوہ نہیں کرتے محبوب کی عظمت پہ لٹا دیتے ہیں سب کچھ ہم پیار کو اپنے کبھی رسوا نہیں کرتے پچھتائیں گے اک روز وہ حالات پہ اپنے کردار کو اپنے جو سنوارا نہیں کرتے محبوب  کی  الفت  میں  گزر جا تے ہیں حد سے *"ہم عشق کے مارے ہوئے کیا کیا نہیں کر تے"* جو عشق کی وادی میں قدم رکھتے ہیں قیصر انجام ہے  کیا  اس کا  وہ  سوچا نہیں  کرتے

سبحان الله

 غزل از ۔ سید خادم رسول عینی خوب صورت ہے بہت فاختہ سبحان اللہ آگیا ہونٹ پہ بے ساختہ سبحان اللہ کتنے گھائل ہوئے بس ایک نظر سے اس کی جیسے آنکھیں ہیں کوئی آختہ سبحان اللہ  اپنے اونچے ہیں قوانین فلک سے آئے نہیں ہیں نظریے خود ساختہ سبحان اللہ ان کی یادوں سے ہے معمور معطر یہ سدا  اس لیے دل نہیں ہے باختہ سبحان اللہ ہے پسند اس لیے یہ ، امن‌ و اماں کے گھر کا  استعارہ ہی رہی  فاختہ سبحان اللہ  حسن فطرت بھی  ہوا جاتا ہے قرباں اس پر  حسن جس  کا نہیں خود  ساختہ سبحان اللہ سامنے باز کے یہ ڈٹ کے کھڑی ہے "عینی" چھپ کے بیٹھی نہیں ہے فاختہ سبحان اللہ

روح عبادت ہے

نعت پاک از ۔ طاہر حسین پلاموی سراپا فیض کا دریا وہی تو نہر رحمت ہے عطائیں عام ہیں اس کی وہی بحر سخاوت ہے منور زندگی ہوگی چلو تم ان کی سیرت پر *مرے سرکار کا نقش قدم شمع ہدایت ہے* کرو مدح و ثنا دل سے شہنشاہ دوعالم کی طریقہ ہے بزرگوں کا صحابہ کی یہ سنت ہے پلا دو جام عرفانی نگاہ ناز سے مرشد یہی ہے آرزو دل کی یہی مدت سے حسرت ہے رضا حاصل خدائے پاک کی ہو جائے گی تم کو پڑھو نعت شہ ابرار یہ روح عبادت ہے کیا سجدہ نماز عشق کا خنجر کے سائے میں بہت اعلیٰ حسین ابن علی تیری عبادت ہے نہیں جائیں گے جنت میں ٹھکانہ نار ہے ان کا جنہیں سرکار بطحا سے بغاوت ہے عداوت ہے شفاعت میری فرمانا وہاں حسنین کے نانا سر محشر فقط تیری رسائی ہے صدارت ہے اگر چاہیں عطاء کردیں شہنشاہی گداگر کو شہ کونین کی طاہر دوعالم پہ حکومت ہے

نعت کہتا ہوں

 نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم از ۔ سید خادم رسول عینی مقدر بن گیا میرا نبی کی نعت کہتا ہوں مرا دل چاند سا چمکا نبی کی نعت کہتا ہوں دماغ اب ھے ادب کے آسمان قدس پر میرا میں ہوں افکار کا تارا نبی کی نعت کہتا ہوں  رضا ،  حسان ،  بو صیری و جامی،  بن رواحہ  کی ہوں سنت پر عمل پیرا نبی کی نعت کہتا ہوں سلام آقا پہ پڑھتا ہوں ، انھی کو پیش کرتا ہوں  درودوں کا میں نذرانہ ، نبی کی نعت کہتا ہوں  یہی میری عبادت ہے یہی میری ریاضت ہے خدا کی کرتا ہوں پوجا نبی کی نعت کہتا ہوں کٹھن یہ راہ ہے بےحد ، ہے اس میں دو طرف سے حد  قلم تو ہوش میں رہنا نبی کی نعت کہتا ہوں اے "عینی" سیرت اقدس بیاں کرتا ہوں نعتوں میں  مرا ہے مرتبہ اعلیٰ نبی کی نعت کہتا ہوں