سمجھا نہیں کرتے

غزل

از ۔ قیصر تیغی ، سمستی پور

ہم عشق میں ہر گز کبھی سودا نہیں کر تے

جاں دیتے ہیں الفت میں تماشہ نہیں کر تے

جو راز محبت کا چھپا یا نہیں کر تے

وہ لطفِ محبت کبھی پا یا نہیں کر تے

اسرار محبت سے نہیں ہوتے وہ واقف

آداب محبت کو جو سمجھا نہیں کرتے

جو کچھ بھی ہمیں ملتا ہے محبوب کے در سے 

دامن میں چھپا لیتے ہیں شکوہ نہیں کرتے

محبوب کی عظمت پہ لٹا دیتے ہیں سب کچھ

ہم پیار کو اپنے کبھی رسوا نہیں کرتے

پچھتائیں گے اک روز وہ حالات پہ اپنے

کردار کو اپنے جو سنوارا نہیں کرتے

محبوب  کی  الفت  میں  گزر جا تے ہیں حد سے

*"ہم عشق کے مارے ہوئے کیا کیا نہیں کر تے"*

جو عشق کی وادی میں قدم رکھتے ہیں قیصر

انجام ہے  کیا  اس کا  وہ  سوچا نہیں  کرتے

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شب معراج

رسولِ ذی شاں مدینے والے

بھر دے تو کاسہ مرا رب کریم