نخرہ نہیں کرتے
غزل
از ۔ نور محمد جامعی
بے چین ہوں دیدار کو نخرہ نہیں کرتے
عاشق کا سر عام تماشا نہیں کرتے
جو عشق کے وادی میں قدم رکھتے ہیں اپنا
انجام مگر وہ کبھی سوچا نہیں کرتے
ہم آئے ہیں دیدار کو تم پردہ نشیں پو
دیوانے ہیں ہم ظلم یوں ڈھایا نہیں کرتے
روتے ہیں کبھی ہسنتے ہیں یادوں میں تمہاری
ہم عشق کے مارے ہوئے کیا کیا نہیں کرتے
گھائل ہوئے جاتے ہیں ہزاروں کے صنم دل
بے پردہ کبھی گھر سے یوں نکلا نہیں کرتے
کر یار بھروسہ ہوں گے وعدے سبھی پورے
خوددار ہیں ہم قول سے مکرا نہیں کرتے
ہے دل کے یہ تہ خانے میں تصویر تمہاری
اب اور کوئی نور کو بھایا نہیں کرتے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں