اشاعتیں

ستمبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نعت ۔ آگاہ نبی ہیں

 نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم از ۔ سید خادم رسول عینی حال دل بیمار سے آگاہ نبی ہیں  صد شکر کہ غمخوار مرے,  شاہ نبی ہیں  شاہد ہیں کتب نائبِ اللہ نبی ہیں  سب خلق کے مالک شہ ذی جاہ نبی ہیں  یوسف کا جمال اس کی شہادت پہ ہے نازاں جو سب سے حسیں فرد ہیں وہ واہ نبی ہیں  ہے شاہ دوعالم کی ہدایات سے ظاہر  عالم کے ہر اک شخص کے خوش خواہ نبی ہیں  اس واسطے لیتے ہیں سبھی نام مقدس ماحیء غم و آفت جانکاہ نبی ہیں   جب دیکھی نشانی تو یہی بول اٹھے سلمان واللہ نبی ہیں یہی واللہ نبی ہیں    پرکیف  ہے یہ جستجو اصحاب نبی کی  خوشبو ہے جدھر" عینی" اسی راہ نبی ہیں

غزل ۔ خوشی کے بعد

غزل از ۔ ناصر خان نعمت وہ رنگ کُھل کے آنے لگا سادگی کے بعد جیسے خزاں، بہار کی جلوہ گری کے بعد تیرے بغیر جینا گوارا نہیں مگر اک اور زندگی بھی ہے اِس زندگی کے بعد تم مانو یا نہ مانو یہ ہے تجربہ مرا آنکھیں اجاڑ دیتے ہیں آنسو ، خوشی کے بعد فرحت، نشاط، عیش، مسرت ، سرور و کیف کس کس کا خون ہو گیا تیری کمی کے بعد مانا کہ بے رخی بھی ضروری ہے عشق میں "لیکن جیے گا کون تری بے رخی کے بعد" بے جان چھوڑ جاتے ہیں دل جن کو دیجیے معلوم ہو گیا ہے تری دوستی کے بعد تم نے زباں سے سن کے تو کر ڈالا فیصلہ لیکن کہا تھا دل نے بھی کچھ خامشی کے بعد جس کو بھی دیکھنا ہو مجھے آ کے دیکھ لے ڈھوتا ہے کیسے خود کو کوئی خودکشی کے بعد تنہائیوں کا خوف ہے یا ڈوبنے کا غم کیوں چاند زرد پڑنے لگا چاندنی کے بعد ناصر چلے ہیں شہر محبت کی راہ پر اب لوٹنا ہے درد کی سوداگری کے بعد

نعت ۔ برس جانے دو

نعت پاک از ۔ کرن زہرہ ، کراچی دل مرے!  ابرِ کرم ان کا برس جانے دو چاہے جتنا ہو یہاں سخت گھمس، جانے دو یا مجھے کر دو عطا روضے کی ٹھنڈی چھاؤں  یا مجھے عشق کی آتش میں جھلس جانے دو مجھ کو جنت میں نہ لے جاؤ اے رضوانِ بہشت مجھ کو  سرکار کے دربار میں بس جانے دو اب نہ روکو مجھے دیدارِ شہِ بطحا سے کردو ہر قید سے آزاد،  قفس! جانے دو چاہے پھر شوق سے آجانا  کوئی عذر نہیں اے مری موت!  مجھے زیرِ کلس جانے دو اب مری آقا سے تنہائی میں باتیں ہوں گی آ گئے وصل کے لمحات ، عسس!  جانے دو مجھ کو لکھنی ہے کرن شرح کلامِ یزداں سوئے طیبہ مری سوچوں کا فرس جانے دو

جھلس جانے دو ۔ از ۔ سیدہ زینب سروری

نعت پاک از ۔ سیدہ زینب سروری ، پاکستان ہیں اسیرانِ محبت یہ  قفس، جانے   دو سوزشِ ہجر میں آقا کے جھلس جانے دو گنبدِ سبز کے ساۓ میں  ذرا دیر کو ہی ہم پہ  انوار کی بارش کو برس جانے  دو پھر ہو عاصی پہ کرم اذنِ زیارت ہو عطا جانبِ شہرِ مدینہ ہمیں ، بس جانے دو شہ سے ایسی ہو محبت  کہ فرشتے  جھومیں عشق والوں میں رہو ، زر کی ہوس جانے دو اُن کی دہلیز پہ ہی، چھوڑ کے دل آۓ  ہیں اذن ہو بارِ دگر، اگلے برس، جانے   دو درگہِ نور پہ جانے کی تڑپ ہے جن کو  کر دو اسباب میسر ، انہیں پس جانے دو مَس کیا دستِ مبارک سے جسے آقا نے ایسی ہر شے کو فقط عطر میں بس جانے دو  شاہ کی حرمت و ناموس پہ پہرے کے لیے  اپنی ہمت کی کمر زور سے کس جانے  دو شاہِ والا کے عدو  چین کہاں پائیں  گے نیند کو گر وہ ترستے ہیں ، ترس جانے دو اُن کے گستاخ  جہنم  کا نوالہ ہوں گے سب کو پاتال  کی گہرائی  میں دھنس جانے دو الفت شاہ کے ایسے ہیں جہاں میں قیدی ہیں جو آزاد اسیروں میں ،قفس جانے دو اصل و کم اصل کے تم  فرق کو جانو زینب دُرِّ نایاب ک...

غزل ۔ کئی بار ہوا

غزل عارفانہ از ۔ فاتح چشتی ، مظفرپوری حادثہ ایسا مرے ساتھ کئی بار ہوا تیر نظروں سے چلا سینے کے اس پار ہوا ایک سے ایک حسیں قید نگہ میں آئے دل مگر تیرا ہی دیوانہ مرے یار ہوا اک ملاقات ہوئی آدھی ادھوری اپنی راستہ چلنا مگر اتنے سے دشوار ہوا لن ترانی کے حجابات بھی ہوں چاک سجن اب شکستہ مرا ہر سرحد اصرار ہوا راز جب کھلنے لگےخود کی حقیقت کے کبھی خود سے ہی خود میں جنوں برسر پیکار ہوا جرم اظہار محبت کی سزا یہ پائی اپنا مسکن کبھی مقتل تو کبھی دار ہوا شکر ہے پرسش احوال کی خاطر آئے نزع کے وقت سہی، آپ کا دیدار ہوا یہ  ہے اعجاز مرے یار مشیت کا تری کوئی مومن تو کوئی صاحب زنار ہوا برق افشانی جاناں بھی کسی نے دیکھی؟ باؤلاپن مرا سرنامۂ اخبار ہوا شدت دید کے طوفاں نے کیا بے پردہ آج مسمار ترا قلعۂ پندار ہوا جام و پیمانے سے پینا بھی کوئی پینا ہے جس نے پی آنکھوں سے وہ واقعی سرشار ہوا جب سے ٹکرائی نظر ان کی نظر سے فاتح ہاتھ سے جان گئی دل بڑا افگار ہوا 9/9/21

رسم شبیری ۔ گرہ بند

از ۔ سید خالد عبداللہ اشرفی، اورنگ آباد، مہاراشٹر، الہند *نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری* خدا کانام لے اٹھ اب دکھادےشان شمشیری "نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری" ادائے مردِ مومن ہے ، یہی ہے کار توقیری  "نکل کر خانقاہوں سے ! ادا کر رسمِ شبیری" تجھے کمزور  کردے نا کہیں تیری یہ دلگیری "نکل کر خانقاہوں سے! ادا کر رسمِ شبیری" چل اب اے مردمومن اٹھ کہ ہو جائے نہ پھر دیری "نکل کر ! خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری" جوانی وار دے  اپنی لگادے داو پر پیری "نکل کر خانقاہوں سے ادا کر ! رسمِ شبیری" بہت چِلّے کیے تونے بہت تسبیح بھی پھیری  "کل کر ! خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری" جواں کر حوصلے اپنے مٹاکر دل سے کمزوری  "نکل کر خانقاہوں سے ! اداکر رسم شبیری" کٹھن حالات ہیں  اسلام کوحاجت ہے پھر تیری  "نکل کر ! خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری" شریعت اورطریقت معرفت کی ہے حقیقت یہ "نکل کر خانقاہوں سے ادا کررسم شبیری" لگا کر نعرۂِ  اللہ اکبر چیر دے سینے  "نکل کر! خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری" چل اپنے خون سے ...

رسم شبیری

از ۔ فاتح چشتی مظفرپوری اٹھا کر پھینک دے پاؤں سے اپنے بند زنجیری "نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری" ہو منظر صور اسرافیل کا ایوان باطل میں لگا دے اے مسلماں پھر سے ایسی ضرب تکبیری اے مومن کھینچ پھر سے تو وہی آہ سحر گاہی کہ تیرا سوز دل رکھتا ہے بیشک عکس اکسیری یہ ارض ہند اپنی ہے وہ ارض پاک اپنی ہے ادھر خواجہ پیا ہیں تو ادھر ہیں داتا ہجویری ترے قدموں کو بڑھ کر چوم لے گی کامیابی خود عمل اخلاص سے ہو پر ، ہو تیری فکر تعمیری حدی خواں ہیں مسلمانوں کی ارض ہند کی ندیاں وہ گنگا ہو کہ جمنا ہو کہ ہو دریائے کاویری یہ جو اپنے پرائے ہو رہے ہیں دن بدن ناداں  مسائل من گھڑت تیرے ہیں فتوے تیرے تکفیری صدا یہ اٹھ رہی ہے منبر و محراب و گنبد سے  سر باطل کی خاطر کھینچ لے اب تیغ تعزیری اےمومن تیرے سینے میں خدا کی ہر امانت ہے جمال ناقۂ صالح ، کمال جذب قطمیری زر و زن کی ہوا نے کر دیے ہیں تیرے بازو شل ارے صیاد تجھ میں کیسے آئی خوئے نخچیری جواں کر آج ہی فاتح  تو اپنا حوصلہ ورنہ تجھے تجھ سے ہی اک دن چھین لے گی آہ و دلگیری 24/12/19

نعت ۔ دل کو تسکیں ملی

 نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم از ۔ سید خادم رسول عینی  شاہ کے نام سے دل کو تسکیں ملی  ان کے پیغام‌ سے دل  کو تسکیں ملی زیست کے پیچ و خم سے پریشان تھا شہ  کے اکرام سے دل کو تسکیں ملی وہ نمازوں کی صورت جو لائے نبی ایسے  انعام سے دل کو تسکیں ملی  بھول کر سب کو میں نعت میں محو ہوں  ایسے اقدام سے دل کو تسکیں ملی  لقمۂ نار  شہ  کے عدو ہوگئے ان کے انجام سے دل کو تسکیں ملی تھا صحابہ کو حکم پیمبر عزیز  ان‌ کے ہر کام سے دل کو تسکیں ملی ماہ نور مبیں برکتوں کا ہے ماہ   اس کے ایام سے دل کو تسکیں ملی ہجر کی شب بھیانک تھی "عینی" بہت  طیبہ کی شام سے دل کو تسکیں ملی

آقا بلا لیجیے ۔ از ۔ کلیمی

نعت پاک از ۔ محمد کلام الدین کلیمی ، مغربی چمپارن دل میں عشقِ نبی یوں بسا لیجیے سرور دو جہاں کو منا لیجیے ڈوب جاۓ نہ دیوانہ منجدھار میں اب خبر جلد یا مصطفیٰ لیجیے حشر میں نفسی نفسی کا عالم ہے، اب نوری چادر میں ہم کو چھپا لیجیے ڈال کر روضۂ مصطفیٰ پر نظر خلد کا اس زمیں پر مزہ لیجیے جتنے ہیں دہر میں دشمنان نبی ان سے ہر ایک رشتہ چھڑا لیجیے آرزو ہے کلیمی کی دیرینہ یہ شہر طیبہ میں آقا بلا لیجیے

غزل ۔ ترے نام ہم نے کیا

 غزل از ۔ سید خادم رسول عینی  خانہ دل کا  ترے نام ہم نے کیا کل اثاثہ ترے نام ہم نے کیا  اس کو ملتا گیا عرش تکمیل کا  جب ارادہ ترے نام ہم نے کیا  اپنی  تقدیر کے آسماں سے جڑا ہر ستارا ترے نام ہم نے کیا  ایک خطہ ہی  کیا عمر کے شہر کا ہر قلابہ ترے نام ہم نے کیا ذات سے تیری ایسی ارادت رہی  ہر ادارہ ترے نام ہم نے کیا گویا  قدرت ہے یہ ، اک زمانہ ہی کیا ہر زمانہ ترے نام ہم نے کیا بن گیا 'عینی"  رستوں کی  وہ شاہراہ اک جو  جادہ  ترے نام ہم نے کیا از: سید خادم رسول عینی