غزل ۔ کئی بار ہوا

غزل عارفانہ

از ۔ فاتح چشتی ، مظفرپوری

حادثہ ایسا مرے ساتھ کئی بار ہوا

تیر نظروں سے چلا سینے کے اس پار ہوا

ایک سے ایک حسیں قید نگہ میں آئے

دل مگر تیرا ہی دیوانہ مرے یار ہوا

اک ملاقات ہوئی آدھی ادھوری اپنی

راستہ چلنا مگر اتنے سے دشوار ہوا

لن ترانی کے حجابات بھی ہوں چاک سجن

اب شکستہ مرا ہر سرحد اصرار ہوا

راز جب کھلنے لگےخود کی حقیقت کے کبھی

خود سے ہی خود میں جنوں برسر پیکار ہوا

جرم اظہار محبت کی سزا یہ پائی

اپنا مسکن کبھی مقتل تو کبھی دار ہوا

شکر ہے پرسش احوال کی خاطر آئے

نزع کے وقت سہی، آپ کا دیدار ہوا

یہ  ہے اعجاز مرے یار مشیت کا تری

کوئی مومن تو کوئی صاحب زنار ہوا

برق افشانی جاناں بھی کسی نے دیکھی؟

باؤلاپن مرا سرنامۂ اخبار ہوا

شدت دید کے طوفاں نے کیا بے پردہ

آج مسمار ترا قلعۂ پندار ہوا

جام و پیمانے سے پینا بھی کوئی پینا ہے

جس نے پی آنکھوں سے وہ واقعی سرشار ہوا

جب سے ٹکرائی نظر ان کی نظر سے فاتح

ہاتھ سے جان گئی دل بڑا افگار ہوا

9/9/21

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شب معراج

رسولِ ذی شاں مدینے والے

بھر دے تو کاسہ مرا رب کریم