رسم شبیری
از ۔ فاتح چشتی مظفرپوری
اٹھا کر پھینک دے پاؤں سے اپنے بند زنجیری
"نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری"
ہو منظر صور اسرافیل کا ایوان باطل میں
لگا دے اے مسلماں پھر سے ایسی ضرب تکبیری
اے مومن کھینچ پھر سے تو وہی آہ سحر گاہی
کہ تیرا سوز دل رکھتا ہے بیشک عکس اکسیری
یہ ارض ہند اپنی ہے وہ ارض پاک اپنی ہے
ادھر خواجہ پیا ہیں تو ادھر ہیں داتا ہجویری
ترے قدموں کو بڑھ کر چوم لے گی کامیابی خود
عمل اخلاص سے ہو پر ، ہو تیری فکر تعمیری
حدی خواں ہیں مسلمانوں کی ارض ہند کی ندیاں
وہ گنگا ہو کہ جمنا ہو کہ ہو دریائے کاویری
یہ جو اپنے پرائے ہو رہے ہیں دن بدن ناداں
مسائل من گھڑت تیرے ہیں فتوے تیرے تکفیری
صدا یہ اٹھ رہی ہے منبر و محراب و گنبد سے
سر باطل کی خاطر کھینچ لے اب تیغ تعزیری
اےمومن تیرے سینے میں خدا کی ہر امانت ہے
جمال ناقۂ صالح ، کمال جذب قطمیری
زر و زن کی ہوا نے کر دیے ہیں تیرے بازو شل
ارے صیاد تجھ میں کیسے آئی خوئے نخچیری
جواں کر آج ہی فاتح تو اپنا حوصلہ ورنہ
تجھے تجھ سے ہی اک دن چھین لے گی آہ و دلگیری
24/12/19
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں