اشاعتیں

جنوری, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

بھر دے تو کاسہ مرا رب کریم

حمد و مناجات از ۔ سید خالد عبداللہ اشرفی، اورنگ آباد خالق   ارض وسما  رب کریم اے جہاں کے بادشا رب کریم لائق حمد  و ثنا    رب  کریم ذات برحق  کبریا   رب کریم من عرف کی ہے صدا رب کریم کر  عطا  عرفاں  ترا رب کریم شان تیری ہونہیں سکتی بیاں عقل سے ہے ماوریٰ رب کریم کبریائی ہے   ترے  ہی  واسطے توہی ہے سب سے بڑا رب کریم لائق سجدہ فقط ہے تیری ذات ہے تو ہی سب کا خدا رب کریم ذرے ذرے سے ہویدا تیری شان ہر جگہ جلوہ ترا رب  کریم گل کو نکہت تو نے بخشی یا خدا مہر و مہ کو دی ضیا رب کریم ذکر،گلشن میں گلستاں میں ترا ہو رہا  صبح و مسا رب  کریم کوئلوں کی راگنی میں تیرا نام ذکر برلب بس ترا رب  کریم دست قدرت میں ترے ہر ایک کے بخت کا   ہے فیصلہ  رب کریم واسطہ تجھ کو ترےمحبوب کا سن لے میری  التجا رب کریم مجھ کو اور میرے سبھی احباب کو مکر  شیطاں سے بچا رب کریم مانا میں بدکار ہوں پر ہوں ترا مجھ پہ کرچشم عطا رب کریم ہوں  سراپا  پرخطا  مولا مرے بخش دے ہراک خطا رب کریم معص...

کریم وذیشان شاہ خوباں

 کریم و ذیشان شاہ خوباں از ۔ فیضان سرور ، بھاگلپور رؤف و جواد و نور یزداں کریم وذیشان شاہ خوباں کرم سےکردیں ہماری مشکل ہرایک آسان شاہ خوباں کلیم کوئی، مسیح کوئی ، خلیل کوئی ،  ذبیح کوئی مگر نہیں ہے بجز تمھارے حبیب رحمان شاہ خوباں وہ میرے ہر درد کے ہیں درماں وہی مری مغفرت کا ساماں ہے میری پہچان ان کی نسبت ہیں جان  ایمان شاہ خوباں ہے تیری صورت مہِ درخشاں ہےتیری سیرت کہ جیسے قرآں ہے خلق خلق ِ عظیم تیرا تو حق کی برہان شاہ خوباں زمیں پہ ہرسمت تیرا جلوہ فلک پہ ہر سو ہے بول بالا رگ جہاں میں تری حرارت تو دہر کی جان شاہ خوباں وہ جن سے لیتے ہیں نور سارے گھٹائیں جگنو، شفق ستارے ہیں زیب لوح وقلم وہ میرے سخن کا عنوان شاہ خوباں خطا سے پر ہے تمہارا دفتر بچوگے کیسے بروز محشر اگر نہ تم پرکریں اےسرور بتاؤ؛ احسان شاہ خوباں

رسولِ ذی شاں مدینے والے

نعت پاک مرزا جاوید بیگ العطاری ، کراچی پاکستان  نبیِ رحمت شفیعِ  اُمت رسولِ ذی شاں مدینے والے خدا کی روشن دلیل و حُجت رسولِ ذی شاں مدینے  والے ہے بات  وحیِ خدا  تمھاری زبان آقا ہے کُن کی کُنجی کلامِ دِلکش میں جامِعیت رسولِ ذی شاں مدینے والے عدو جوپہلے تھے جاں کے دشمن  نثار کرنے لگے وہ تن من تمھاری باتوں میں ہے حلاوت رسولِ ذی شاں مدینے  والے مِٹایا دُختر کُشی کا  چکر  حقوق ِ نِسواں کیے اُجاگر اُنہیں دلایا حقِ وِراثت رسولِ ذی شاں مدینے والے قلیل  ٹھہری  متاعِ  دُنیا ہے تم پہ فضلِ کبیر رب کا خدا نے بخشی تمھیں وہ کثرت رسولِ ذی شاں مدینے والے جلال رب کا غضب تمھارا رِضا تمہاری خدا  کی منشا وِلا تمہاری  خدا کی  اُلفت رسولِ ذی شاں مدینے والے یہ دل میں حسرت مچل رہی ہے دعا لبوں پر  یہی  سجی ہے دِکھادیں مجھکو بھی اپنی طلعت رسولِ ذی شاں  مدینے  والے تمہارا مِدحت سرا ہے مرزا تمھارے دربار کا  ہے منگتا رہے سلامت سدا یہ نِسبت رسولِ ذی شاں مدینے والے

تختِ جم ہو یا کہ دارا یا ہوشاہا تختِ کَے

قصیدہ در مدحِ وجہِ تخلیقِ جہاں از ۔ سید رضا علی ، اورنگ آبادی  *ہیں   شہنشاہِ   جہاں   اُن   کے    گدا    کے  سامنے*  *پھر   رہے    ہیں   یوں  کہ   گویا   دولتِ   عالَم لیے*  *منظرِ   طیبہ   وطن   میں   یاد    زائر   جب  کرے*  *کہتا ہے،   پھر!  کاش،    بہرِ    دیدِ    منظر    لوٹتے* *ہوتے   شامل    بلبلانِ   دشتِ   طیبہ   میں  جو  ہم*  *چہچہوں    میں   دل   کا   عالم ان کے در پر بولتے*  *ہے   خطابِ    اَیُّکُم    مِثلِی   گواہ   بے   مثل   ہیں*  *مثل    کہنے   والے    رکھیں     اپنے    ...

یہاں یار کےمدح خواں اور بھی ہیں

غزل سیدخالدعبداللہ عبداللہ اشرفی اورنگ آباد مہاراشٹر الہند یہاں اور بھی ہیں وہاں اور بھی ہیں  "ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں" گل عشق تیرا پسند آیا ورنہ زمانے میں یوں گلستاں اور بھی ہیں مچاتے  ہو واویلا کیوں اتنا پیارے  ابھی دل میں ارماں جواں اوربھی ہیں وہ کرکے اشارہ مری سمت بولے  مرے عشق میں نیم جاں اور بھی ہیں اگر تم ہو یکتا جہاں میں  حسیں تو  دوانے بھی ہم سے کہاں اور بھی ہیں ترے در پہ دھونی  رمائیں کیوں آخر زمانے میں کوئے بتاں اور بھی ہیں یہ مخصوص دیر و حرم پر نہیں ہے  ترے تو جہاں میں مکاں اور بھی ہیں ارے کور بیں  جلوے جاناں کے ہرسو نہاں اور بھی ہیں عیاں اور بھی ہیں توجہ  شمع  سے ہٹا کر  بھی دیکھو یہاں جلنے والے مکاں اور بھی ہیں یہ ہے بزم جاناں تکبر نہ کرنا یہاں یار کےمدح خواں اور بھی ہیں تو ہی ایک خالد نہیں اس کا اپنا تری طرح سن! رازداں اور بھی ہیں

چین،سکوں سے،راحت سے

2021 کی آخری نعتیہ کاوش از ۔ فارِح مظفرپوری 31/دسمبر 2021 ہرسانس ہمیشہ لیتاہوں میں چین،سکوں سے،راحت سے خوشحال مرا دل رہتا  ہے  ہر لمحہ انھی کی مدحت سے کعبہ کو بنائے ہو قبلہ ، یثرب کو بنائے مدینہ ہو "صحرا میں کھلے ہیں پھول حسیں، سرکار تمھاری رحمت سے" بیتاب نگاہیں ہیں میری للہ ادھر ہو ایک نظر تسکین انھیں مل جائے گی بس نوری در کی زیارت سے اک بار سہی بلوا لیجے ، دیدار مدینہ کرادیجے امید لیے بیٹھا ہوں یہی یا شاہ عرب اک مدت سے جو نام نبی پر مرتے ہیں وہ شان سے مر کر جیتے ہیں یہ موت میسر ہوتی ہے عشاق کو اپنی قسمت سے خیرات جو در سے پاتا ہے بس گیت انھیں کا گاتا ہے مطلب وہ نہیں رکھتا ہے کبھی دنیا کے مال و دولت سے جب ان کی ثنا  کا  ارادہ ہو  الفاظ  مقدس لانا تم پھر شعرتمھارا نکھرے گا اے فارِح ان کی عنایت سے

جو بارگہ سید ابرار میں آیا

2022کی پہلی نعت پاک از ۔ فاتح چشتی مظفرپوری زمین۔۔عرفان صدیقی سوچا بھی نہ تھا میں نے جو اظہار میں آیا قسمت کا بڑا تھا بڑے دربار میں آیا سرکار مرے آپ کی سرکار میں آیا گو خلد بریں کے وہ مزے لوٹ رہا ہے جو بارگہ سید ابرار میں آیا ہر تار نفس موجۂ تسکین میں ڈوبا جب ذکر نبی قریۂ تذکار میں آیا مربوط کیا سلک ثنائے شہ دیں سے  تب جا کے ادب حیطۂ معیار میں آیا اے طائر لاہوت مبارک ہو مبارک تمدیح کا دانہ تری منقار میں آیا اک حرف تری عظمت یکتا کا لیا تھا شعلوں کا جنوں شوخئ گفتار میں آیا بانوئے ادب ناز سے بل کھانے لگی ہے مدحت کا بیاں جیسے ہی اشعار میں آیا سورج کی چمک،مہ کی دمک،زور تنور ہر وصف، نظر حسن طرح دار میں آیا گیسوئے معنبر جو کھلے جان جہاں کے رحمت کا سماں وادی و کہسار میں آیا جو پایا گیا زلف معطر کے جلو میں وہ رنگ کبھی نافہ و نسوار میں آیا؟ خورشید و قمر بن کے وہ چمکا ہے افق پر جو ذرہ رہ  راحلۂ یار میں آیا پنجاب عطا جیسا بھی دیکھا ہے کسی نے؟  وہ جوش تموج کبھی ابحار میں آیا؟ چرچے تھے ہر اک سمت فلک پر شب اسرا یہ کون حسیں پردۂ زنگار میں آیا اس گنبد اخضر کا تصور ہی کیا تھا سامان شفا دید...