یہاں یار کےمدح خواں اور بھی ہیں
غزل
سیدخالدعبداللہ عبداللہ اشرفی اورنگ آباد مہاراشٹر الہند
یہاں اور بھی ہیں وہاں اور بھی ہیں
"ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں"
گل عشق تیرا پسند آیا ورنہ
زمانے میں یوں گلستاں اور بھی ہیں
مچاتے ہو واویلا کیوں اتنا پیارے
ابھی دل میں ارماں جواں اوربھی ہیں
وہ کرکے اشارہ مری سمت بولے
مرے عشق میں نیم جاں اور بھی ہیں
اگر تم ہو یکتا جہاں میں حسیں تو
دوانے بھی ہم سے کہاں اور بھی ہیں
ترے در پہ دھونی رمائیں کیوں آخر
زمانے میں کوئے بتاں اور بھی ہیں
یہ مخصوص دیر و حرم پر نہیں ہے
ترے تو جہاں میں مکاں اور بھی ہیں
ارے کور بیں جلوے جاناں کے ہرسو
نہاں اور بھی ہیں عیاں اور بھی ہیں
توجہ شمع سے ہٹا کر بھی دیکھو
یہاں جلنے والے مکاں اور بھی ہیں
یہ ہے بزم جاناں تکبر نہ کرنا
یہاں یار کےمدح خواں اور بھی ہیں
تو ہی ایک خالد نہیں اس کا اپنا
تری طرح سن! رازداں اور بھی ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں