تختِ جم ہو یا کہ دارا یا ہوشاہا تختِ کَے
قصیدہ در مدحِ وجہِ تخلیقِ جہاں
از ۔ سید رضا علی ، اورنگ آبادی
*ہیں شہنشاہِ جہاں اُن کے گدا کے سامنے*
*پھر رہے ہیں یوں کہ گویا دولتِ عالَم لیے*
*منظرِ طیبہ وطن میں یاد زائر جب کرے*
*کہتا ہے، پھر! کاش، بہرِ دیدِ منظر لوٹتے*
*ہوتے شامل بلبلانِ دشتِ طیبہ میں جو ہم*
*چہچہوں میں دل کا عالم ان کے در پر بولتے*
*ہے خطابِ اَیُّکُم مِثلِی گواہ بے مثل ہیں*
*مثل کہنے والے رکھیں اپنے آگے آئنے*
*کیا ہلالِ آسماں کیا مہر کیا انجم سبھی*
*ہیں اُسی دربار سے غازہ ضیا کا پا رہے*
*خوب ہے باغِ جناں! خیرات دیتے یاں کے گل*
*اُودے، نِیلے ، سُرخ، پِیلے، سَبز، جوڑے رنگ کے*
*ماہ و نجم و مہر جو چمکا کریں ہیں چرخ پر*
*ذرہ ہائے پا سے تیرے شاہ یہ روشن ہوئے*
*رنگِ خارِ دشتِ طیبہ کیا ہی رنگت ہے تری*
*باغِ عالم، ائے میں قرباں۔ تجھ سے رنگت پا رہے*
*جتنے جملے آپ کرتے ہیں زباں سے شہ ادا*
*بہرِ عاشق ہو گئے میٹھے وہ بڑھ کر شہد سے*
*مانگنا ہی تھا کہ اُس سے پہلے ہی بے شک شہا*
*سائلوں کے تم نے دامن دُرِّ رحمت سے بھرے*
*ہے لباسِ دِل، پھٹا جاتا ہے دنیا سے، مگر*
*اِس پہ پیوند ،عاشقی، کا بس شہا ،تیری، ٹَکے*
*آپ کی آمد مرے آقا جہاں جب جب ہوئی*
*قلبِ عالم بہرِ استقبال رستوں میں بِچھے*
*دامنِ امید تو نے اِس قدر تر کر دیا*
*مانگنے والے بھلا کیا اور تجھ سے مانگتے*
*دِل وہی ہے جس میں تیری یاد کی برسات ہو*
*آ نبھا ہم کو یہ دِل جاناں تجھے ہم دے چکے*
*آنکھ ہر منظر کو ٹھکرا کر ہوئی ہو فرشِ رہ*
*بس تری نوری جھلک کی روشنی کے واسطے*
*جاگ اٹھے گی یہ قسمت، جب بلاوا آئے گا*
*آئیں گے عشاق ، تیرے در پہ آقا جھومتے*
*تیری آمد سے چھٹی ظلمت اجالا ہو گیا*
*تیری آمد کے رہیں گے تا قیامت غلغلے*
*علمِ غیبِ مصطفی سے کرتا ہے انکار جو*
*راکھ ہو، اُس پر گریں قہر و غضب کے صاعقے*
*ذکرِ آقا کو مٹانے کا معاذاللہ، خیال*
*لاتا ہے گر کوئئ، قہرِ رب سے وہ خود مر مٹے*
*پرچمِ شانِ رسالت کون نیچا کر سکا*
*اِس طرح کی فکر والے خود ہی نیچے گِر گئے*
*دیکھنے والوں کی تیرے اور طلب بڑھتی رہی*
*ہر گھڑی دیدار ہو، دِل میں اٹھے یوں ولولے*
*تیرے کوچے میں پہنچ کر کہہ اٹھے عشاق یوں*
*شکر ہے اللہ کا پھر دِن خوشی کے آگئے*
*مالکِ کونین کر کے حکم کے پابند پھر*
*عرش و کرسی لا مکاں سب کچھ کیے رب نے! ترے*
*نفسی نفسی میں تجھے دیکھا بدوں نے تو کہا*
*دیکھو دیکھو رب سے بخشش وہ دِلانے آگیے*
*آہ ! شب ہائے لحد کتنی رہیں تاریک تر*
*جب ترا جلوہ ہوا عاصی کے تیرے دِن پھرے*
*دی تجھے جس نے پریشانی کے عالم میں صدا*
*کام آئی تیری رحمت کُھل گئے سب راستے*
*ہے ترا فرمان تیری دید دیدِ رب ہے پھر*
*کاش محبوب و محب کا ہم بھی جلوہ دیکھتے*
*ہے درودِ پاک سے قُربت رسول اللہ کی*
*کیجیے اِس کو وظیفہ خوب ہے اِس میں مزے*
*اُن کی رحمت جس پہ ہو جائے تو پھر کرتا ہے وہ*
*پار آسانی سے ہر مشکل سے مشکل مرحلے*
*سایۂ دیوار و در ہم کو خدارا ہو عطا*
*تابکہ جھیلیں شہا طیبہ نگر سے فاصلے*
*خو تری آمادۂ تقسیم ہے، تو رہتے ہیں*
*دمبدم رحم و کرم کے ہم پہ جاری سلسلے*
*فضلِ رب نے غیب داں تجھکو کیا ہے سرورا*
*سب ہےافشاں تجھ پہ ایساکچھ نہیں ہے جو چُھپے*
*گٹھریاں کَس کے امیدوں کی نکل پڑتا ہے واں*
*عشق کو پروا نہیں گو پا میں نکلے آبلے*
*جو ترے ہوجائیں پھر تو اُن کے اوپر یا نبی*
*ہے سحابِ رحمتِ باری کی بارش پے بہ پے*
*ذی تصرف ربِ اکبر کے خزانوں میں ہے کون*
*تو ہی تھا تو ہی رہے گا اور شاہا تو ہی ہے*
*تو اگر چاہے تو ہو ممکن شہا تیری ثنا*
*اور ثناگر کو مسلسل ہوں عطا پھر قافیے*
*تجھ کو ربِ پاک نے اپنے لیے پیدا کیا*
*اور عالم میں ہے سب پیدا کیا! تیرے لیے*
*جھولیاں پھیلی ترے دربار میں پھر صف بصف*
*جب ترے صدقے ،غنی، دربار سے تیرے بٹے*
*جو پھرے دربار سے تیرے شہنشاہِ جہاں*
*ٹھوکریں در در کی کھاتے آج تک ہیں پھر رہے*
*رقص کرواتی ہے تیری یاد میں دِل کو یہی*
*عشق کی ہے بِین اور کیا لطف دہ ہے اس کی نَے*
*ذکر تیرا گھٹ نہیں سکتا بفضل اللہ کبھی*
*محوِ ذکرِ تو ہے شاہا ایک ایک عالم کی شے*
*ہیچ ہیں تیرے گداؤں کے گدا کے پیش سب*
*تختِ جم ہو یا کہ دارا یا ہو شاہا تختِ کَے*
*نور ہے تو نورِ باری کا، شہِ کون و مکاں*
*تیرے جلوؤں سے ہیں روشن خانۂ دِل کے دِیے*
*نیرِ محشر کی تپتی دھوپ جب مارے گی جوش*
*ہونگے ہم عاصی نبی کے ٹھنڈے سائے کے تلے*
*رب سلم کی صدا پُل سے کراے گی یوں پار*
*عاشقوں کے گِرد ہونگے رحمتوں کے دائرے*
*نورِ نور و کانِ نور و ائے سراپا نور نور*
*لکۂ نوری سے برسا ہم پہ جھالے نور کے*
*بحرِ غم میں غرق ہوجاتے ہیں تیرے سب عدو*
*شادمانی ہے انہیں جو تیرا دامن تھام لے*
*شرمِ عصیاں سے، ترے دربار میں آنے کے بعد*
*کس طرح گنبد کی جانب آنکھ عاصی کی اٹھے*
*اُف طبیبا! چھوڑ، کیا پڑھتا ہے نبضِ نیم جاں*
*بس انہیں کے درد میں رہتے ہیں ہم اچھے بھلے*ی
*تیرا واصف ربِ اکبر، وصف قرآنِ مجید*
*یہ رضائے بد بھلا تیری ثنا میں کیا لکھے*
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں