جو بارگہ سید ابرار میں آیا
2022کی پہلی نعت پاک
از ۔ فاتح چشتی مظفرپوری
زمین۔۔عرفان صدیقی
سوچا بھی نہ تھا میں نے جو اظہار میں آیا
قسمت کا بڑا تھا بڑے دربار میں آیا
سرکار مرے آپ کی سرکار میں آیا
گو خلد بریں کے وہ مزے لوٹ رہا ہے
جو بارگہ سید ابرار میں آیا
ہر تار نفس موجۂ تسکین میں ڈوبا
جب ذکر نبی قریۂ تذکار میں آیا
مربوط کیا سلک ثنائے شہ دیں سے
تب جا کے ادب حیطۂ معیار میں آیا
اے طائر لاہوت مبارک ہو مبارک
تمدیح کا دانہ تری منقار میں آیا
اک حرف تری عظمت یکتا کا لیا تھا
شعلوں کا جنوں شوخئ گفتار میں آیا
بانوئے ادب ناز سے بل کھانے لگی ہے
مدحت کا بیاں جیسے ہی اشعار میں آیا
سورج کی چمک،مہ کی دمک،زور تنور
ہر وصف، نظر حسن طرح دار میں آیا
گیسوئے معنبر جو کھلے جان جہاں کے
رحمت کا سماں وادی و کہسار میں آیا
جو پایا گیا زلف معطر کے جلو میں
وہ رنگ کبھی نافہ و نسوار میں آیا؟
خورشید و قمر بن کے وہ چمکا ہے افق پر
جو ذرہ رہ راحلۂ یار میں آیا
پنجاب عطا جیسا بھی دیکھا ہے کسی نے؟
وہ جوش تموج کبھی ابحار میں آیا؟
چرچے تھے ہر اک سمت فلک پر شب اسرا
یہ کون حسیں پردۂ زنگار میں آیا
اس گنبد اخضر کا تصور ہی کیا تھا
سامان شفا دیدۂ خوں بار میں آیا
آتے ہی لب شوق پہ نام شہ عالم
کیا جوش جنوں کانپتی پتوار میں آیا
دیتا ہے طبیبان جہاں کو بھی دوائیں
کچھ ایسا اثر آپ کے بیمار میں آیا
نسبت جو ہوئی آپ کی سیرت سے کریما
پھر لطف کہاں درہم و دینار میں آیا
بے سایہ ہیں وہ ،کہتا ہے تو اپنی طرح ہیں
نجدی بھلا کیسے ترے پندار میں آیا
آواز، جو دی نعرۂ تکبیر کی *فاتح*
لرزش کا سماں نرغۂ کفار میں آیا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں