ساماں نہیں رہا

غزل

از ۔ فاتح چشتی مظفرپوری

طوفان نوح لانے کا خواہاں نہیں رہا
صد شکر میں فراق میں گریاں نہیں رہا

سارا اثاثہ ہجر کی آتش میں جل گیا
اب پاس میرے سینۂ سوزاں نہیں رہا

اشک فراق جذب کروں تو کہاں کروں
محفوظ سوز عشق سے داماں نہیں رہا

ایسی شکست کھائی ہے نظروں کے تیرسے
اس دل میں جوش آہوئے میداں نہیں رہا

نظریں ملیں جو ان سے تو بجلی سی گرگئی
اک دم ہوا کچھ ایسا دم جاں نہیں رہا

اک دل ہی تو تھا وہ بھی کوئی لوٹ لے گیا
جینے کے واسطے کوئی ساماں نہیں رہا

گہرائی جب سے ناپی ہے ،،حبل الورید،،کی
اک لمحہ پرسکوں دل بریاں نہیں رہا

ان کی تجلیوں نے چکا چوندھ کردیا
اب شوق دید روئے حسیناں نہیں رہا

جب سے ملی ہے نسبت دست کمال یار
واللہ میں کوئی سکۂ ارزاں نہیں رہا

عقدہ کشائی ان سے مری کی نہیں گئی
میں بھی اسیر زلف پریشاں نہیں رہا

وا حسرتاہ حرماں نصیبی مری تو دیکھ
اک لمحۂ وصال کو کوشاں نہیں رہا

*فاتح* سلامتی سے گزر آئے کس طرح
 ترکش میں ان کے کیا کوئی پیکاں نہیں رہا؟

1/12/21

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

شب معراج

رسولِ ذی شاں مدینے والے

بھر دے تو کاسہ مرا رب کریم