غزل ۔ خوشی کے بعد
غزل
از ۔ ناصر خان نعمت
وہ رنگ کُھل کے آنے لگا سادگی کے بعد
جیسے خزاں، بہار کی جلوہ گری کے بعد
تیرے بغیر جینا گوارا نہیں مگر
اک اور زندگی بھی ہے اِس زندگی کے بعد
تم مانو یا نہ مانو یہ ہے تجربہ مرا
آنکھیں اجاڑ دیتے ہیں آنسو ، خوشی کے بعد
فرحت، نشاط، عیش، مسرت ، سرور و کیف
کس کس کا خون ہو گیا تیری کمی کے بعد
مانا کہ بے رخی بھی ضروری ہے عشق میں
"لیکن جیے گا کون تری بے رخی کے بعد"
بے جان چھوڑ جاتے ہیں دل جن کو دیجیے
معلوم ہو گیا ہے تری دوستی کے بعد
تم نے زباں سے سن کے تو کر ڈالا فیصلہ
لیکن کہا تھا دل نے بھی کچھ خامشی کے بعد
جس کو بھی دیکھنا ہو مجھے آ کے دیکھ لے
ڈھوتا ہے کیسے خود کو کوئی خودکشی کے بعد
تنہائیوں کا خوف ہے یا ڈوبنے کا غم
کیوں چاند زرد پڑنے لگا چاندنی کے بعد
ناصر چلے ہیں شہر محبت کی راہ پر
اب لوٹنا ہے درد کی سوداگری کے بعد
ماشاءاللہ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںجزاک الله
حذف کریں