ادائیں ہیں دلکش
غزل
از ۔ سید خادم رسول عینی
مری جان جاں کی ادائیں ہیں دلکش
ذرا دیکھو کاکل ، گھٹائیں ہیں دلکش
جو رہتا ہے خوش فہمیوں کے چمن میں
اسے لگتا ہے، سب فضائیں ہیں دلکش
انھیں لےلے بانہوں میں باب اجابت
ترے لب سے مشتق دعائیں ہیں دلکش
سمندر کے جسموں پہ موجوں کی صورت
چمکتی دمکتی قبائیں ہیں دلکش
ترے میرے جو درمیاں جلوہ گر ہیں
کبھی لگتا ہے، وہ خلائیں ہیں دلکش
شب ہجر میں دل کو دیتی ہیں راحت
تری یاد کی سب ردائیں ہیں دلکش
وہ پھیلاتی ہیں خوشبوئیں برکتوں کی
اذانوں کی "عینی" صدائیں ہیں دلکش
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں