فارِح مظفرپوری
غزل
حد سبھی توڑ کے چپکے چپکے
آ گئے گھر مرے چپکے چپکے
ہم نےہنس کر سہے چپکے چپکے
درد تھے جو دیے چپکے چپکے
باپ اور ماں کے سوا دنیا میں
کون ہے پیار دے چپکے چپکے
حکم سب اس کے بجا لاتے ہیں
ہاتھ باندھے ہوئے چپکے چپکے
میری بیماری کی خبریں پھیلیں
سب جدا ہو گئے چپکے چپکے
دیں گے میت کو ہمارے کاندھا؟
وہ جو پیچھے ہٹے چپکے چپکے
ہچکیاں آ کے یہ بولیں فارح
یاد ہم کو کیے چپکے چپکے
۱۶/رمضان ۱۴۴۲
29/اپریل 2021
واااااااااااااااہ واااااااااااااااہ بہہہہہہت خوبببببببببب ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںپسندیدگی اور تعاون کا بہت شکریہ
حذف کریں